فائز ہماری کلاس میں ایک خوبصورت نوجوان تھا۔ اس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ ہر لڑکی کے بارے میں کمنٹ کرتا تھا کہ وہ کیسی ہے۔

لڑکے بہت دھیان سے اسکی بات سنا کرتے تھے۔ ایک دن فائز اور اور افق کے درمیان لڑائی ہو گئی کہ فائز نے افق کی بہن کے متعلق رائے دی تھی کہ وہ ایسی ویسی ہے تو دونوں کے درمیان اتنی لڑائی ہوئی کہ یہ پوری بریک میں لڑتے رہے۔

بریک بند ہوتے ہی اتالیق صاحب کلاس میں داخل ہوئے تو کلاس میدان جنگ بنی ہوئی تھی۔ سر نے اپنی آستینیں چڑھائی اور ماحول کو اپنے قابو میں کیا۔

سنجیدہ انداز میں سر نے بلال کو کھڑا کیا اور باقی کلاس کو خاموش رہنے کا کہہ کر بلال سے ماجرا دریافت کیا۔

بلال نے بتایا کہ فائز نے افق کی بہن پر الزام لگایا ہے۔ تو افق نے فائز سے لڑائی کی ہے۔

ابھی بلال کی بات پوری نا ہوئی تھی کہ فائز بولا کہ سر وہ اچھی لڑکی نہیں ہے۔ وہ دو نمبر لڑکی ہے۔ اتنے میں افق کو غصہ آیا اور وہ اٹھ کھڑا ہوا کہ زندہ نہیں چھوڑے گا۔

اتالیق سر نے بھی قسم کھا رکھی تھی کہ آج ان کے دماغ درست کر کے گھر بھیجنا ہے۔

سر نے کہا افق، آپ کی  بہن میری بھی بہن ہے۔ اب آپ نہیں میں پوچھوں گا اس سے۔

افق کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا۔ سر نے کہا کہ اس کو باہر لے کر جاو۔ جب افق باہر جا چکا تو سر نے فائز  سے پوچھا کہ جناب کیا زہن پا یا ہے آپ نے۔۔ آپ تو مہان ہو۔

آپ کو کیسے پتا کہ وہ لڑکی ٹھیک نہیں؟

فائز: سر میں۔۔ وہ۔۔ سر۔۔ سوری۔۔

سر: نہیں اب مجھے جاننا ہے کہ وہ کیوں ٹھیک نہیں؟

فائز: سر جانے دیں۔

سر: نہیں ۔ تو یہ بات کرنے سے پہلے کیوں نہیں سوچا؟

فائز۔ سر غلطی ہوگئی ہے۔ آیندہ نہیں کرتا ایسی بات۔

سر: فائز صاحب میں نے بولا نا کہ اپ تو مہان ہیں۔ اتنا نیک کام کیوں چھوڑیں گے آپ؟

نا نا۔۔ ایسے کام نہیں چھوڑا کرتے۔ آپ تو لوگوں کی مدد کرتے ہیں یہ بتا کرکہ کون کیسا ہے؟ اب بتائیں آپ نے کس بنیاد پر یہ کہا کہ وہ لڑکی ٹھیک نہیں؟

فائز: سر وہ۔۔۔ سر وہ میں نے محلے میں اسے کسی اور کے ساتھ دیکھا تھا۔

سر: اچھا تو یہ بات ہے۔ بس دیکھا تھا؟

فائز: جی سر۔ ۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور۔۔

سر: اور کیا؟

فائز۔ سر وہ دکان پر اکثر آتی رہتی ہے۔ چھوٹی موٹی چیزیں لینےکے لیے۔ بھائی بھی ہیں اس کے۔ پھر بھی۔

سر: اچھا۔۔ یہ تو کافی سجنیدہ صورت حال ہے۔

فائز: جی سر تب ہی تو میں نے کہا تھا کہ وہ دو نمبر لڑکی ہے بہانے بہانے سے باہر آتی ہے۔ کئی دفعہ دیکھا ہے کہ وہ لڑکوں کو دیکھتی بھی ہے۔

دسمبر کی سردی تھی۔ اور سر کو پسینہ آگیا تھا۔ سر کی عادت تھی کہ جب بہت غصہ آتا تو پانی مگوالیتے۔۔ اور پیتے رہتے۔

سرنے پسینہ صاف کرتے ہوئے بولا۔۔ بہت گھمبیر صورت حال ہے لیکن فائز لڑکی یا اس کے گھر والوں کی نہیں تمہاری۔۔

مجھے شرم آ رہی ہے تمہیں اپنا شاگرد دیکھ کر۔

میری کہی ہوئی کوئی بات یاد نہیں تمہیں؟

فائز تم کون ہوتے ہو، کسی لڑکی کے بارے میں کسی قسم کا کمنٹ پاس کر نے والے۔۔ اوقات کیا ہے تمہاری؟

بڑے نیک بنے پھرتے ہو۔

فائز نے اندر ٹوکا۔ اور بولا کہ سر شریف گھروں کی لڑکیاں ایسے باہر نہیں نکلتی۔

سر: شٹ اپ۔۔ جسٹ شٹ اپ۔۔ ( سر نے کدرے اور نارمل ٹون میں کہا)

فائز خاموش تھا۔ اب۔

سر بولے۔ تم پہلے خود کو تو ٹھیک کر لو۔ کیا تم نیک ہو؟

فائز خاموش تھا۔

سر: کیا تمہاری پاک بازی کی گواہی دینے کے لیے فرشتےاترتے ہیں؟

فائز صاحب اگر اتر بھی آئیں نا تب بھی تمہیں کوئی اختیار نہیں ہے کہ تم کسی بھی انسان کے متعلق کوئی رائے بناو۔

مسلمان تو وہ ہے جس کی زبان سے، جس کے ہاتھ سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے۔ اور تم جینا حرام کر رہے ہو۔

فائز کیا میں نے تمہیں وہ آیت نہیں پڑھ کر سنائی کہ مرد اپنی نگاہیں جھکا کر رکھیں۔

اللہ کی اس بات پہ عمل کیا تھا؟  کہتے ہو کہ وہ دو نمبر لڑکی ہے۔

تم نے دیکھا بھی کیسے؟ تمہیں تو اسکے آنے جانے کا وقت، وہ کیسے آتی ہے۔ سب یاد ہے۔ اسکا مطلب ہے آپ نے خود تو اس آیت پہ عمل نہیں کیا۔۔ اور چلے ہو فتویٰ دینے کہ وہ دو نمبر ہے۔

طوائف والا واقعہ یاد ہے ؟ کتے کو پانی پلانے پر بخش دی گئی تھی۔ لیکن وہ تو طوائف تھی۔۔ کیوں بخشا اس کو؟ کبھی سوچا ہے؟

اللہ کے ڈر کی وجہ سے فائز میاں۔ اس نے اللہ سے ڈرتے ہوئے اسکی مخلوق کی تکلیف دور کی اور بخشش پا لی۔ اور تم اپنے منہ سے گند بک کر سمجھتے ہو کہ تم نے تیر مارا ہے۔ جب کہ تمہاری اپنی حالت یہ ہے کہ محلے کی کوئی لڑکی تمہاری نظروں سے نہیں بچی ہوئی۔ کیا لگتا ہے؟ مجھے اس محلے میں رہتے ہوئے کچھ پتا نہیں ہے؟ متعدد دفعہ تمہاری شکایت سن چکا ہوں اور خاموش تھا کہ شائد میری باتیں کوئی اثر کریں گی تم پہ۔

مگر تم تو وہ گونگے، اندھے بہرے نکلے جو عقل سے کام نہیں لیتے۔۔

ایک بات تم سب کان کھول کر سن لو۔

خاتون ہو، بچہ ہو۔ بوڑھا ہو۔ ہیجڑا ہو۔ کوئی بھی ہو۔ سب کی عزت تم سب پر فرض ہے۔

تم رات میں کسی کو کوئی چھپ کر گناہ کرتے بھی پا لو تو دن کے وقت اس کو گناہ گار نہیں سمجھ سکتے۔ کیا معلوم اس نے رات ہی توبہ کر لی ہو؟

کسی بندے کو اس کے کسی بھی غلط کام، کسی عورت کو اس کے لباس، اس کی ایسی ویسی حرکات کسی کو کوئی بنیاد فراہم نہیں کرتی کہ وہ ان کے بارے میں فتویٰ جاری کرے۔ اور نا ہی یہ بات زیب دیتی ہے کہ آپ اس کی بے عزتی کریں۔

ہر شخص پر فرض ہے کہ وہ دوسرے کی مال، اولاد اور عزت کو محفوظ رہنے دے۔

لیکن آپ تو جانتے ہیں اور آپ یقین میں حق الیقین کے درجے پر ہیں تو جان لیجیے کہ اپ عزت کیوں کریں گے؟

آپ عزت اس لیے کریں گے کہ یہ آپ کے اندر ڈالی گئی ہے۔ وہی چیز باہر آتی ہے نا جو اندر ہوتی ہے۔

اور یہ تربیت سکھاتی ہے کہ کیا عزت کرنی ہے یا نہیں کرنی۔

اگر گٹی میں عزت ہوگی۔ ماں باپ ، بہن بھائیوں نے عزت کی ہوگی کروائی ہوگی تو آپ عزت ضرور کریں گے۔

کیوں کہ اگر میں ہاتھ میں دودھ کا گلاس ہے تو یہ ممکن نہیں کے اس میں شراب چھلکے۔ شراب صرف تب چھلکے گی جب گلاس میں شراب ہوگی۔ آپ کے رویے، الفاظ، لہجے میں عزت تب آئے گی جب یہ آپ کے اندر بھری ہوگی۔

کوئی لڑکی کہیں بھی جا رہی ہے تو اسے اس بات پہ یقین ہونا چاہیے کہ لڑکے اسکے بھائی جیسے ہیں۔ اس کی عزت کرتے ہیں۔ پھر وہ چاہے طوائف ہو۔ اس کا لباس کم ہو۔ نا زیبا ہو۔  وہ اٹھتی بیٹھتی ٖغلط لوگوں کے ساتھ ہو۔ اس کے عزت اس لیے کرنی ہے کہ تمہیں عزت کرنا سکھایا گیا ہے۔

کسی کے چال چلن، رتبے اور مالی حالت دیکھ کر عزت کرنا یا نہ کرنا یہ جانوروں والی صفت ہے۔ وہ کمزور کو دبوچ لیتے ہیں اور کمزور ان کے عتاب کا شکار ہوتا ہے۔ جانور نہیں ہو آپ سب۔۔ انسان ہو۔ ۔۔ ثابت کریں کہ آپ ایک اعلیٰ مخلوق ہیں۔

فائز۔۔ کوئی بات سمجھ میں آتئ میری؟

فائز: ۔۔۔ (وہ سر جھکا کے روئے جا رہا تھا اور بول نہیں پایا۔۔ صرف سر ہلا کر جواب دیا۔)

سر: اب جو کام آپ نے شروع کیا ہے اسے ختم بھی آپ ہی کرو گے۔

آپ نے زیادتی کی ہے۔ معافی بھی اپ ہی مانگو گے۔

فائز:۔ ج۔۔۔۔۔ جی سر۔

افق کو اندر بلایا گیا۔ اب بھی غصے میں تھا۔

گالی بکنے ہی والا تھا کہ فائز کے جڑے ہاتھ دیکھ کر خاموش ہوگیا۔۔

سر: افق۔ فائز سے غلطی ہوئی ہے۔ اگر وہ معافی مانگ رہا ہے تو مطلب ہے اسے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے۔

آسان نہیں ہے۔ بالکل بھی آسان نہیں ہے۔ لیکن معاف کرو گے تو اللہ خوش ہوگا۔

افق آپ کو پتا ہے۔ کہ فائز کی اس حرکت کے ذمے دار ہم سب ہیں۔ فائز ایسی الٹی سیدھی  باتیں کرتا رہتا تھا اور ہم سب یعنی اس کو سننے والے مزے لے لے کر سنتے تھے۔

آپ لوگوں کو زرہ بھی خیال نہیں آیا کہ جوکام فائز کرتا ہے کل کو ہم خود اس کی زد میں آسکتے ہیں؟ پر آپ کو لگا تھا کہ ہماری خواتین تو ایسی ویسی نہیں ان کے بارے میں کوئی بات نہیں ہو سکتی؟

تو جناب ہمسائے میں آگ لگی ہو تو کوئی چنگاری آپ کے گھر بھی آ سکتی ہے۔

اس لیے غلط بات کہیں بھی نظر آئے اسے غلط کہیں یا کم از کم اسے غلط جان کر اس سے دور رہیں۔۔

آگ کہیں بھی لگی ہے۔۔ وہ جلاتی ہی ہے۔ آگ بجھائیں۔ ۔

 

 

NaveedAhmad

I am a biologist an educationist and a teacher by profession. i am a passionate and keen learner as well. I love to teach and learn new things every time any where. Besides teaching, blogs writing here and running a Youtube channel with name " concept biofication" and reading are my hobbies. Concept biofication is a small effort to conceptualize the educational system. Students should subscribe to learn basics of biology in the best way.