چی گویرا کیوبا کے انقلاب کی ایک اہم شخصیت تھے۔ وہ دنیا بھر میں بغاوت اور انقلابی نظریات کی ایک پہچان سمجھے جاتے ہیں۔ ان کے مطابق:

“The imperialists are not interested in seeing the world free and independent. They want obedient clients.”

ترجمہ: “سامراجی قوتیں دنیا کو آزاد و خودمختار نہیں دیکھنا چاہتیں، وہ فرماں بردار گاہک چاہتی ہیں۔”

اور ہم، جنوبی ایشیا کے ممالک، بشمول بھارت اور پاکستان، ان کے سب سے ‘فرماں بردار صارفین’ میں شامل ہو چکے ہیں۔

ہمیں آج 76 سالہ جنوبی ایشیائی تاریخ کا سنجیدگی سے جائزہ لینا ہوگا۔ کیا ہمارے سیاسی، اقتصادی، جنگی و سماجی فیصلے واقعی ہمارے قومی مفادات کے تحت ہوتے ہیں؟ یا وہ وہیں طے پاتے ہیں جہاں سامراجی طاقتیں بیٹھتی ہیں، جو دو عالمی جنگیں رچا چکیں اور تیسری دنیا کے وسائل کی بندر بانٹ کے لیے ایک دوسرے سے ٹکرا چکیں؟

1941ء کے اٹلانٹک چارٹر (Atlantic Charter) میں برطانیہ اور امریکہ نے یہ طے کر لیا تھا کہ اب دنیا کی قیادت امریکہ سنبھالے گا، اور رنگ، نسل، مذہب کے نام پر تقسیم دراصل وسائل پر کنٹرول کی نئی چال ہوگی۔ اس کے بعد، جنگ کو ایک معیشت بنا دیا گیا، جس کا مقصد صرف دولت پیدا کرنا اور وسائل پر قبضہ کرنا تھا۔ چاہے اس کے لیے قوموں کو ایک دوسرے سے لڑانا ہی کیوں نہ پڑے۔

کیا ہم نے دیکھا نہیں کہ ہم پلک جھپکتے میں جنگیں چھیڑ دیتے ہیں اور پھر انہی طاقتوں کے ایک اشارے پر رک بھی جاتے ہیں؟ اسلحہ، ہتھیار، جنگی ٹیکنالوجی۔۔ یہ سب وہی قوتیں ہمیں فراہم کرتی ہیں، جنہوں نے ہمیں آپس میں دشمن بنا کر رکھا ہے۔ کیا اس سب سے یہ حقیقت واضح نہیں ہوتی کہ ہم ایک آزاد و خودمختار قوم نہیں، بلکہ جدید نوآبادیاتی نظام کے غلام ہیں؟ پاکستان اور بھارت جیسے ممالک کو سامراجی طاقتوں نے ایک دوسرے کے خلاف اس طرح ترتیب دیا کہ ان کی دشمنی کبھی مکمل ختم نہ ہو۔ نتیجتاً، دونوں ممالک کی فوجی ضروریات، اسلحہ، دفاعی معاہدے، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے قرضے، سب انہی طاقتوں سے وابستہ ہو گئے جو ان تنازعات کو زندہ رکھتی ہیں۔

کہنے کو انڈیا اور پاکستان دو ایٹمی طاقتیں ہیں، وسائل سے مالا مال اور مین پاور کی بھی کمی نہیں مگر ہم آج بھی عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے غلام ہیں—ایسے مسلط شدہ جدید نو آبادیاتی نظام کے زیر اثر، جہاں ہمارے اندرونی فیصلے بھی بیرونی ایجنڈوں کے تابع ہوتے ہیں۔عوام کا کردار کہاں ہے؟ نہ کوئی ریفرنڈم، نہ کوئی عوامی مشاورت، نہ پارلیمان میں جنگ پر کھلی بحث، نہ پالیسی سازی میں عوامی شرکت۔ فیصلے ہوتے ہیں خفیہ ملاقاتوں میں، سفارتی کیمروں کے پیچھے، یا قرض دینے والے اداروں کی شرائط پر۔ ان فیصلوں کے نتائج اکثر و بیشتر ہماری آبادی، وسائل، اور خطے کے امن کے لیے تباہ کن ثابت ہوتے ہیں۔ یہ نظام صرف ہماری خودمختاری نہیں چھینتا بلکہ ہمارے خطے کی ترقی، امن، اور عوامی خوشحالی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

عالمی اسکالر جان پرکنز اپنی مشہور کتاب Confessions of an Economic Hitman میں لکھتا ہے:

” آج کی سامراجی طاقتوں کا مقصد فتوحات حاصل کرنا نہیں بلکہ کنٹرول قائم رکھنا ہے۔ یہ اس بات کو یقینی بنانے کا عمل ہے کہ عالمی نظام مسلسل اشرافیہ کو فائدہ پہنچاتا رہے — عوام کی اکثریت کی قیمت پر۔”

اور افسوس کی بات یہ ہے کہ چاہے ایک طرف امریکہ ہو یا دوسری طرف چین، ہم دونوں ملکوں کی حیثیت دونوں کے درمیان محض ایک گیم بورڈ پر بچھے ہوئے مہرے سے زیادہ نہیں۔ ہماری ریاستی خودمختاری اتنی کمزور ہو چکی ہے کہ ہم نہ اپنی معاشی ترجیحات خود طے کر سکتے ہیں، نہ دفاعی پالیسیاں، نہ علاقائی تنازعات پر آزاد مؤقف۔ ہم نہ ‘غالب’ کیمپ کا حصہ ہیں، نہ ‘مزاحمتی’ کیمپ کا۔ بلکہ ہم اُن دونوں کے درمیان اپنے وسائل، عوام، خودداری اور نظریات کی قیمت پر گھومتے ہیں۔ نہ ہمیں اپنی نسلوں کی فلاح کا احساس ہے، نہ مجموعی قومی ترقی اور خوشحالی کا کوئی واضح وژن، ہماری خارجہ پالیسی سے لے کر دفاعی فیصلوں تک، سب کچھ عالمی سامراجی نظام کی منظوری اور مفاد سے مشروط ہوتا ہے۔

حقیقی دشمن بیرونی نہیں، اندرونی نوآبادیاتی ڈھانچہ ہے۔ وہ ریاستی ادارے، وہ بیوروکریسی، وہ پالیسی ساز اشرافیہ جو عوام کی نمائندہ نہیں، بلکہ سامراجی مفادات کی محافظ ہے۔ جب تک ہم اس اندرونی استعماری اسٹرکچر کو تبدیل نہیں کرتے، ہم کبھی خودمختار اور آزاد قوم نہیں بن سکتے۔ حقیقی آزادی صرف جنگوں سے نہیں، بلکہ اندرونی اصلاح، اتحاد اور خطے کی عوام کے ساتھ تعاون سے حاصل ہوتی ہے۔

ہمارے اداروں کو عوامی مفاد کے تابع ہونا ہوگا، پالیسیوں کو عوامی مشاورت کے ذریعے ترتیب دینا ہوگا، اور قومی وژن کو جنگی معیشت کی جگہ امن، تعلیم، انصاف اور برابری پر استوار کرنا ہوگا۔ جب تک ہم جنگوں سے نکل کر اتحاد، ہم آہنگی اور فکری خودمختاری کا راستہ نہیں اپنائیں گے، ہم سامراج کے جال میں ہی بھٹکتے رہیں گے، چاہے وہ امریکہ بچھائے یا چین۔