Table of Contents
پہلی قسط یہاں پڑھیں
دوسری قسط یہاں پڑھیں
مولانا جلال الدین رومی (1207–1273ء)
مولانا رومی کے نزدیک ارتقاء روحانی اور جسمانی دونوں پہلو رکھتا ہے:
“میں غیر جاندار تھا، پھر پودا بنا
پھر جانور، پھر انسان
پھر فرشتہ بنوں گا
اور آخر کار وہ بن جاؤں گا جس کا تصور بھی ممکن نہیں”
اقبال نے رومی کو ارتقائی نظریہ کے روحانی نمائندہ کے طور پر پیش کیا اور کہا کہ:
“رومی کے نزدیک انسان ارتقاء کی آخری منزل نہیں بلکہ ایک عبوری مقام ہے،
جس کے بعد وہ فرشتوں سے بھی بلند تر مقام پر جا سکتا ہے”
ابن خلدون (732–808ھ / 1332–1406ء)
ابن خلدون ارتقاء کے مفصل نظریہ کے حامل تھے۔ ان کے مطابق:
کائنات کی ابتدا معدنیات سے ہوئی
پھر تدریجی طور پر نباتات، پھر جانور اور پھر انسان وجود میں آئے
ہر نوع کی آخری سطح اگلی نوع کے ابتدائی درجے سے منسلک ہے (مثلاً: پودوں کا اختتام کھجور پر، جو جانوروں سے قریب ہے)
بندر انسان سے پہلے کا حیوان ہے، جو سمجھ بوجھ رکھتا ہے مگر تفکر سے محروم ہے
انسان اس کا ارتقائی تسلسل ہے
انسان کے بعد ایک اور روحانی دنیا ہے، جہاں فرشتے اور اعلیٰ مخلوقات بستے ہیں۔ ابن خلدون لکھتے ہیں:
“انسانی روح کو ہمیشہ بلند تر مرحلے کی طرف تیار رہنا چاہیے، تاکہ وہ کسی بھی لمحے ‘فرشتہ’ بن سکے”
کیا ڈارون نے ارتقاء کا نظریہ خود ایجاد کیا؟
عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ چارلس ڈارون پہلا سائنس دان تھا جس نے ارتقاء کا نظریہ پیش کیا۔ تاہم، مقالے میں بیان کیے گئے دلائل سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈارون نے مسلم فلاسفہ کے نظریات سے متاثر ہو کر، انہیں سائنسی زبان میں پیش کیا۔ ذیل میں اس بات کے چند اہم ثبوت پیش کیے گئے ہیں:
جان ولیم ڈریپر کا بیان (1878ء)
ڈریپر، جو ڈارون کا ہم عصر تھا، اپنی کتاب میں لکھتا ہے:
“ہم بعض اوقات ایسے خیالات سے روبرو ہوتے ہیں جن کے متعلق ہمیں یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ وہ صرف ہماری جدید دنیا کی اختراع ہیں،
حالانکہ ارتقاء اور ترقی کے یہ نظریات مسلمانوں کے مدارس میں صدیوں پہلے پڑھائے جاتے تھے۔
انہوں نے ان نظریات کو معدنی اشیاء تک پھیلا دیا تھا۔”
محمد حمیداللہ کا بیان
ڈاکٹر محمد حمیداللہ ارتقاء سے متعلق مسلمان مفکرین کے خیالات یوں بیان کرتے ہیں:
“اللہ نے سب سے پہلے مادہ پیدا کیا اور اسے ترقی کی طاقت عطا کی۔
مادہ بھاپ بنا، پھر پانی کی صورت اختیار کی، پھر معدنی زندگی بنی۔
پھر نباتات پیدا ہوئے، جن میں سب سے ترقی یافتہ درخت کھجور ہے،
جو نر و مادہ رکھتا ہے اور انسان جیسی صفات رکھتا ہے۔
اس کے بعد جانور وجود میں آئے، اور آخرکار انسان، جو پھر نبی، ولی اور فرشتہ بنتا ہے،
اور سب سے بالا ہستی اللہ تعالیٰ ہے، جہاں سے سب کچھ شروع ہوا اور جہاں سب واپس لوٹتا ہے۔”
اخوان الصفا کا نظریہ
ان کے مطابق:
“نباتات، حیوانات کی غذا بننے کے لیے پہلے پیدا ہوئے،
جیسے ماں دودھ پیدا کرتی ہے تاکہ بچہ آسانی سے پی سکے۔
نباتات عناصر سے غذا کشید کرتے ہیں، اور پھر یہ غذا حیوانات کو ملتی ہے۔
اسی طرح، حیوانات انسان کی خدمت کرتے ہیں۔
اس لیے انسان سب کے بعد پیدا ہوا تاکہ وہ باقی تمام مخلوقات پر حکومت کر سکے۔”
اخوان الصفا، الفوز الاصغر اور دیگر کتب کی دستیابی
اخوان الصفا کے رسائل کے انگریزی ترجمے 1812ء میں شائع ہو چکے تھے
“الفوز الاصغر“ اور دیگر عربی مخطوطات انیسویں صدی میں کیمبرج یونیورسٹی میں موجود تھے
اس بات کا امکان قوی ہے کہ ڈارون کو ان کتب تک رسائی حاصل تھی
ارتقاء کا تصور ڈارون کو کہاں سے ملا؟
ڈارون نے ارتقاء کے ابتدائی خیالات اپنے دادا، اراسمس ڈارون سے سیکھے
اراسمس ڈارون نے بھی مسلم فلاسفہ کی کتب سے استفادہ کیا تھا
بعد میں چارلس ڈارون نے ان خیالات کو سائنسی مشاہدات اور تجربات کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کیا
کیا ڈارون کو عربی آتی تھی؟
جی ہاں۔ ڈاکٹر حمیداللہ کے مطابق:
ڈارون نے عربی زبان سیکھی تاکہ وہ اسلامی علوم کو براہ راست سمجھ سکے
اس کی خطوط کی ایک اشاعت میں ایسے خطوط شامل ہیں جو اس نے اپنے عربی استاد کو لکھے
وہ کیمبرج یونیورسٹی کے شعبہ مذاہب میں پروفیسر سیموئیل لی کے شاگرد رہے، جو عربی اور عبرانی کے ماہر تھے
ڈارون ایک خط میں لکھتا ہے:
“میں پروفیسر لی کے ساتھ بیٹھا، وہ بہت خوش مزاج اور باتونی شخص تھا…
وہ سات سال دیہاتی پادری رہنے کے بعد تہذیب اور مشرقی مخطوطات کی دنیا میں واپس آیا تھا۔”
نتیجہ
تمام دلائل سے یہ واضح ہوتا ہے کہ:
چارلس ڈارون نے ارتقاء کے نظریہ کو مسلمان مفکرین کے خیالات سے متاثر ہو کر تشکیل دیا
اگرچہ اس نے براہ راست کوئی حوالہ نہیں دیا، مگر زبان، اساتذہ، دستیاب کتب، اور خطوط سے اس کا تعلق واضح ہے
ڈارون نے ان اسلامی نظریات کو سائنسی تجربات اور مشاہدات کے ساتھ پیش کیا، جس سے یہ عالمی سطح پر معروف ہو گئے
-ختم شد-